”فقہ حنفی“ کی
شورائیت پر ایک نظر
اس وقت پوری دنیا میں
عملی اعتبار سے ائمہ اربعہ کی فقہ رائج ومتداول ہے، ان میں بھی
عمومی قبولیت اور خصوصی امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہے
؛ بلکہ اگر کہا جائے کہ اولیت ومرجعیت اسی فقہ کا مقدر ہے، تو
غلط نہ ہوگا، فقہ حنفی نے ترقی کی جس اوج کمال کو دریافت
کیاہے اس کے اسباب وعلل کا پتہ لگانا دشوار نہیں؛ اس فقہ کی ترقی
وکمال کا راز سربستہ بظاہر اس فقہ کی جامعیت، احوال زمانہ سے ہم آہنگی،
اصول وقواعد کی پختگی اور احادیث وآثار کا انضمام ہے۔
فقہ حنفی کی
خصوصیت:
علامہ شبلی نعمانی نے ”سیرة النعمان“ میں فقہ
حنفی کی خصوصیت پر مفصل کلام کیاہے، جس کا خلاصہ یہ
ہے کہ: (۱)
فقہ حنفی کے مسائل
اسرار ومصالح پر مبنی ہوتے ہیں (۲) فقہ حنفی پر عمل بہ نسبت تمام فقہوں کے نہایت آسان
ہے (۳)
فقہ حنفی میں
معاملات کے متعلق جو قاعدے ہیں نہایت وسیع اور متمدن ہیں
(۴)
فقہ حنفی نے ذمیوں
کے حقوق (یعنی وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہیں؛ لیکن
مسلمانوں کی حکومت میں مطیعانہ رہتے ہیں) نہایت فیاضی
اور آزادی سے دئیے ہیں۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس کی
نظیر کسی امام اور مجتہد کے یہاں نہیں ملتی (۵) فقہ حنفی نصوصِ شرعیہ کے موافق ہے، یعنی
جو احکام نصوص سے ماخوذ ہیں اور جن میں ائمہ کا اختلاف ہے ان میں
امام ابوحنیفہ
جو پہلو اختیار کرتے ہیں وہ عموماً قوی اور مدلل ہوتا ہے۔
(ص:۱۹۴)
شورائی
نظام:
فقہ حنفی کی ایک اہم
خصوصیت یہ ہے کہ یہ فقہ ایک شخص کی رائے پر مبنی
نہیں ہے؛ بلکہ امام ابوحنیفہ نے جس جامع اور محیط طرز پر فقہ کی
تدوین کا منصوبہ بنایا تھا، وہ انتہائی وسیع اور دشوار
کام تھا، اس لیے آپنے اتنے بڑے اور اہم ارادے کی تکمیل کے لیے
اپنے شاگردوں میں سے چالیس جبال العلم محدثین وفقہاء، طریقِ
تخریج کے ماہر اور علم عربیت ولغت کے رمز شناس افراد کا انتخاب کیا
اور ایک مجلس شوریٰ تشکیل دی، جب بھی کوئی
مسئلہ درپیش ہوتا تو امام صاحب تمام اراکین شوریٰ سے
استفسار کرتے، اگر تمام کی رائے کسی ایک امر پر متفق ہوجاتی
تو امام ابویوسف
منقح انداز میں اصول کی کتابوں میں درج فرمادیتے، اور اگر
رائے مختلف ہوتی تو آزادانہ طور پر بحث کا سلسلہ جاری رہتا، کبھی
کبھی ایک ایک مسئلہ پرمہینوں بحث کا سلسلہ جاری رہتا،
پھر جب روشن صبح کی طرح دلائل واضح ہوجاتے تو اس کو لکھ لیا جاتا؛
موفق بن احمد مکی ”مناقب ابی حنیفہ“ میں لکھتے ہیں:
”فکان یلقی مسئلة مسئلة وسمع ما عندھم ویقول
ما عندہ ویناظرھم شھراً أو أکثر من ذلک حتی یستقر أحد الأقوال
ثم یثبتھا أبو یوسف فی الأصول“
امام
صاحب ایک ایک مسئلہ پیش کرتے اور ان کی رائے سنتے اور
اپنا نظریہ بیان کرتے اور ایک ایک مہینہ ؛ بلکہ
ضرورت پڑتی تواس سے بھی زیادہ عرصہ تک اس میں مناظرہ
ومباحثہ کرتے رہتے، حتی کہ جب کسی ایک قول پر سب کے رائے جم جاتی
تو امام ابویوسف
اصول میں درج کردیتے۔ (مناقب موفق: ۲/۱۳۳)
اس کے بعد بھی اگر کسی کا
اختلاف رہ جاتا تو ان کے اختلاف کے ساتھ بقید تحریر لایا جاتا
اور اس امر کا اہتمام والتزام ہوتا کہ جب تک ایک مسئلہ حل نہ کرلیا
جائے التواء میں نہ ڈالا جائے؛ علامہ کردری کا بیان سنتے چلئے،
فرماتے ہیں:
”اذا وقعت لھم مسئلةٌ یدیرونھا حتی یضیوٴنھا“
جب
اس مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو اس کو آپس میں خوب
گردش دیتے، یہاں تک کہ بالآخر اس کی تہ تک پہنچ کر اس کو روشن
کرلیتے۔ (مناقب کردری:۲/۳)
امام صاحب محض اپنی ذاتی
رائے کی تدوین پسند نہ کرتے، جب تک خوب اس پر اچھی طرح غور نہ
فرمالیتے اور مجلس شوریٰ کے ذریعہ بھی اس کے ہر
پہلو نمایاں نہ ہوجاتے، یہی وجہ ہے کہ کبھی امام ابویوسف امام صاحب کی رائے بدون تنقیح
وتحقیق لکھ دیتے تو امام صاحب ان کو متنبہ فرماتے:
”لا تکتب کل ما تسمع منی فانی قد أری الرأی
الیوم وأترکہ غداً، وأری الرأی غداً وأترکہ فی غدہ“
ہر
وہ چیز جو مجھ سے سنتے ہومت لکھ لیاکرو؛ کیوں کہ اگر میںآ
ج کوئی رائے قائم کرتاہوں تو کل اُسے چھوڑ دیتا ہوں اور کل کی
رائے پرسوں ترک کردیتا ہوں“
(تقدمہ نصب الرایہ:۳۱۰)
فقہی مسائل
میں شوریٰ کی شرعی حیثیت:
اسلام میں شوریٰ کی
افادیت واہمیت مسلم ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے
انصار کے نظامِ شوریٰ کی تعریف وتوصیف بیان
کرتے ہوئے فرمایا: ”وأمرھم
شوریٰ بینھم“
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو
مشورہ کی تلقین فرمائی: ”وشاورھم فی الأمر“ احادیث میں بھی شوریٰ کی
حکمتیں اور فضیلتیں مذکور ہیں، اسی لیے
حضراتِ صحابہ شورائی نظام پر عمل پیرا تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ
فرماجانے کے بعد سب سے پہلا مسئلہ ”خلافت“ کا صحابہ نے شوریٰ ہی
کے ذریعہ حل کیا تھا، حضرت ابوبکر اپنے زمانہٴ خلافت میں شوریٰ
کے ذریعہ ہی مسائل حل کیا کرتے تھے، بیہقی نے
”السنن الکبری“ میں میمون بن مہران کے حوالے سے نقل کیا
ہے کہ:
”حضرت
ابوبکر کے پاس جب بھی کوئی مقدمہ
آتا اور کتاب وسنت میں اس کا حل ملتا تو اسی کے ذریعہ فیصلہ
فرماتے تھے، اوراگر قرآن وسنت میں مسئلہ کا حل نہ معلوم ہوتا تو صحابہ کے پاس آتے اور صحابہ سے پوچھتے کہ میرے
پاس ایسا مقدمہ آیا ہے، کیا تم میں سے کسی نے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے
اس طرح کے مقدمہ کا کوئی فیصلہ سنا ہے؟ بعض صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان
کرتے تو حضرت ابوبکر
اس پر عمل کرتے اور اللہ کی تعریف کرتے کہ ہمارے درمیان ایسے
لوگ ہیں جو اپنے نبی کے علم کے محافظ ہیں، لکن اگر حدیث
سے بھی کوئی حل نہ ملتا، تو کبار صحابہ اور فقہاء صحابہ کو جمع کرتے
ان سے مشورہ کرتے اور جب وہ لوگ کسی امر پر متفق ہوجاتے تو اسی کا فیصلہ
فرمادیتے“
(السنن الکبری
للبیہقی: ۱۰/۱۱۴-۱۱۵، المصباح:۱/۱۱۱)
حضرت عمر نے بھی اپنے زمانہٴ خلافت میں
فقہی مسائل کے حل کے لیے ایک شوریٰ تشکیل دی
تھی اورجب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا تو مدینہ کے
فقہاء صحابہ کو جمع کرکے تبادلہ خیال فرماتے اور اجتماعی طورپر کوئی
فیصلہ فرماتے، علامہ ابن القیم نے بھی اپنی تصنیف
اعلام الموقعین، ج:۱،ص:۶۵ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے اس شورائی منہج کو تفصیل
سے بیان کیا ہے۔ فقہی مسائل کے حل کے سلسلہ میں
حضراتِ صحابہ میں زید بن ثابت، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس کا اور تابعین میں عمر بن
عبدالعزیز، مروان بن الحکم، اور فقہاء سبعہ مدینہ کا بھی شورائی
منہج تھا۔ (المصباح:۱/۱۱۵)
مجلس شوریٰ
کی جامعیت:
حضرت حماد کے انتقال کے بعد کوفہ کی مسند جب
امام صاحب کے سپرد کی گئی تو باوجودیکہ امام صاحب علمِ حدیث
کے امام اور فقہ کے استاذ الاساتذہ تھے، اجتہاد میں اعلیٰ مقام
پر فائز تھے، اوراس باب میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے، پھر بھی اس
وادی غیر ذی زرع اور لق ودق میدان میں تنہا طبع
آزمائی کرنا مناسب خیال نہ کیا اور اپنے ممتاز تلامذہ کو بھی
کارِ اجتہاد میں شریک کیا، اور اس طرح حضرت الامام نے حضراتِ شیخین کی سنت کو زندہ کیا، اس نظام
کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں مسائل کے حل کے لیے اجتماعی
سعی کی جاتی ہے اور اجتماعی سعی انفرادی کوشش
سے بہرحال افضل ہے، اگرچہ یہ طریقہ بھی معصوم عن الخطاء نہیں
ہے؛ لیکن انفرادی کوشش کی بہ نسبت اس طریقہٴ اجتہاد
میں غلطی کا امکان کم ہے،اس پر مستزاد یہ کہ اجتماعیت میں
جو قوت ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اسی لیے
جب امام المحدثین وکیع بن الجراح کے سامنے کہا گیا کہ: امام
صاحب سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی ہے، تو انھوں نے کہا: امام
ابوحنیفہغلطی کیسے کرسکتے ہیں، جبکہ ان کے پاس ابویوسف
اور زفر جیسے قیاس کے ماہر، یحییٰ بن
ابوزائدہ، حفص بن غیاث، حبّان اور مندل جیسے حفاظِ حدیث اور
قاسم بن معین اور امام محمد جیسے لغتِ عربیت کے جاننے والے،
دواؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسے زاہد ومتقی حضرات
ہیں اگر ابوحنیفہ
غلطی کریں گے تو کیا یہ لوگ ان کی اصلاح نہ کریں
گے؟ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص:۱۵۲)
وکیع کے اس بیان سے جہاں
تدوین فقہ کی دستوری کمیٹی کے افراد کی علمی
جلالتِ قدر سامنے آتی ہے اور بحث وتحقیق کا طریقِ کار معلوم
ہوتا ہے، وہیں امام صاحب
کے ارکانِ شوریٰ کی جامعیت اور آپ کے رفقاء کے بلند مقام
کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔
بحث ومباحثہ:
مجلس شوریٰ میں جب بھی
کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا تو تمام اراکین کھل کر بحث ونقد
میں حصہ لیتے اورہر ایک کو احادیث وآثار اور اجماع وقیاس
کی روشنی میں آزادانہ نقد وتبصرہ کا موقع دیا جاتا، مجلس
کا ہر ہر فرد آزادی کے ساتھ اپنی دلیل امام صاحب کے سامنے پیش
کرتا اور امام صاحب ہر ایک کی دلیل صبر وضبط سے سنتے رہتے، بسا
اوقات ان کی آواز بھی بلند ہوجاتی اور دورانِ بحث بعض اراکین
خود امام صاحب سے جو صدر مجلس اور سب کے استاذ بھی ہوتے، اختلاف کربیٹھتے
اور یہاں تک کہہ دیتے کہ ”آپ کی فلاں دلیل غلط ہے“ بعض
اجنبی لوگ امام صاحب سے کہتے کہ: آپ اتنی بے باکی سے بات کرنے
والوں کو کیوں نہیں روکتے؟ تو امام صاحب فرماتے کہ: میں نے خود
ان کو آزادی دی ہے اوران کو اس امر کا عادی بنایا ہے کہ
کسی سے مرعوب نہ ہوں اور یہ لوگ ہر ایک کے حتی کہ میرے
دلائل پر نکتہ چینی کریں تاکہ صحیح بات بالکل منقح ہوکر
سامنے آجائے۔ (معجم المصنّفین،ص:۱۷۴)
بعض مرتبہ بعض اراکین امام صاحب
کے سامنے ایک دوسرے کی تردید کرتے تو امام صاحب جانبین کے
دلائل سن کر واضح فیصلہ فرماتے، علامہ کردری امام صاحب کے نبیرہ اسمٰعیل
بن حماد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
”ایک
مرتبہ امام ابویوسف امام ابوحنیفہ کے داہنے جانب بیٹھے تھے اور
امامِ زفر بائیں جانب اور دونوں ایک مسئلہ میں بحث کرنے لگے، جب
امام ابویوسف
کوئی دلیل پیش کرتے توامامِ زفر اس کی تردید کردیتے
اور جب امام زفر کوئی دلیل پیش کرتے توامام ابویوسف اس کی تضعیف کردیتے، یہ
مباحثہ ظہر تک جاری رہا، جب ظہر کی اذان ہوئی تو امام ابوحنیفہ نے امامِ زفر کی ران پر ہاتھ مارکر فرمایا:
زفر ایسے شہر کی سرداری کی طمع نہ کر جس میں ابویوسف
رہتے ہیں اور امام ابویوسف کے حق میں فیصلہ فرمایا“
(مناقب کردری:۲/۳۹۶)
فقہ تقدیری:
فقہ حنفی کی غیرمعمولی
شہرت ومقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امام صاحب کی
شوریٰ میں صرف پیش آمدہ واقعات وحادثات پر بحث نہیں
ہوتی تھی؛بلکہ غیرپیش آمدہ واقعات کے حل کی جانب بھی
خصوصی توجہ دی جاتی تھی؛ تاکہ جب واقعہ پیش آئے تو
اس کا حل ممکن ہو اور عمل کرنا آسان ہو، امام صاحب نے شوریٰ کے توسط
سے ایسے اصول مرتب کیے کہ ہر زمانے میں پیش آمدہ مسائل کا
حل بآسانی دریافت کیا جاسکے، امام صاحب کے تقدیری
مسائل سے شغف کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایاجاسکتا ہے جس کو خطب نے نقل کیا ہے کہ:
”نضر بن محمد کہتے ہیں کہ ابو قتادہ کوفہ آئے اور ابوبردہ
کے گھر قیام کیا، ایک دن باہر نکلے تو لوگوں کی بھیڑ
ان کے گرد جمع ہوگئی، قتادہ نے قسم کھاکر کہا جو شخص بھی حلال وحرام
کا مسئلہ دریافت کرے گا میں ضرور اس کا جواب دوں گا، امام ابوحنیفہ
کھرے ہوگئے اور فرمایا ابوالخطاب (ان کی کنیت ہے) آپ اس عورت کے
متعلق کیا فرماتے ہیں کہ جس کا شوہر چند سال سے غائب رہا، اس نے یہ
یقین کرکے کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے دوسرا نکاح کرلیا، اس
کے بعد پہلا شوہر بھی آگیا، آپ اس کے مہر کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟
اور جو بھیڑ ان کو گھیرے کھڑی تھی ان سے مخاطب ہوکر فرمایا
اگر اس مسئلہ کے جواب میں یہ کوئی حدیث روایت کریں
گے تو غلط روایت کریں گے اوراگر اپنی رائے سے فتویٰ
دیں گے تو وہ بھی غلط ہوگا، قتادہ بولے کیا خوب! کیا یہ
واقعہ پیش آچکا ہے، امام صاحب نے فرمایانہیں، انھوں نے کہا پھر
جو مسئلہ ابھی تک پیش نہیں آیا اس کا جواب مجھ سے کیوں
دریافت کرتے ہو، امام صاحب نے فرمایا کہ ہم حادثہ پیش آنے سے
قبل اس کے لیے تیاری کرلیتے ہیں تاکہ جب پیش
آجائے تو اس سے نجات کی راہ معلوم رہے، قتادہ ناراض ہوکر بولے خدا کی
قسم میں حلال وحرام کا مسئلہ تم سے بیان نہیں کروں گا، ہاں کچھ
تفسیر کے متعلق پوچھنا ہوتو پوچھو! اس پر امام صاحب نے ایک تفسیری
سوال کیا قتادہ اس پر بھی لاجواب ہوگئے اور ناراض ہوکر اندر تشریف
لے گئے۔ (تاریخ بغداد۱۳/۳۴۷)
اس واقعہ سے امام صاحب کی ذکاوت
وذہانت اور فقہ سے گہری وابستگی کے ساتھ تقدیری اور بعد میں
پیش آنے والے مسائل کی طرف ان کے غایت انہماک واہتمام کا پتہ
بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔
مجموعہ مسائل:
امام صاحب ۱۲۰ھ میں اپنے استاذ حضرت حماد کی مسند پر جلوہ افروز
ہوئے اور ۱۵۰ھ میں عالم ناسوت سے داربقا کو چلے گئے، اس لیے کہا
جاسکتا ہے کہ امام صاحب کا شورائی نظام تقریباً تیس سال پر محیط
ہے، لیکن بعض حضرات کی رائے ہے کہ ۲۲سال کی مدت میں امام صاحب نے قانونِ اسلامی
اور فقہ حنفی کو مدون کیا ہے، خیر یہ مدت تیس سال
ہو یا بائیس سال، اس طویل المیعاد مدت میں اس شوریٰ
نے کس قدر مسائل کا استنباط کیا، اس میں بھی علماء کے اقوال
مختلف ہیں، بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ تعداد بارہ
لاکھ نوے ہزار ہے، شمس الائمہ کردری لکھتے ہیں کہ یہ مسائل چھ
لاکھ تھے، علامہ موفق بن احمدمکی
نے بھی چھ لاک کا قول نقل کیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ فقہ حنفی
کی کتابوں سے اس کی تائید ہوتی ہے؛ لیکن محققین
کے رائے ہے کہ امام صاحب کی شوریٰ کے ذریعہ فیصل
ہونے والا مجموعہ ۸۳ ہزار دفعات پر مشتمل
تھا، جس میں ۳۸ ہزار مسائل
عبادات سے متعلق تھے، باقی ۴۵ ہزار مسائل کا تعلق معاملات وعقوبات سے تھا، اورامام صاحب کو
جب کوفہ سے بغداد جیل منتقل کیاگیا تب بھی تدوین
فقہ کا سلسلہ جاری رہا اور امام محمد کا تعلق امام ابوحنیفہ سے یہیں قائم ہوا اوراضافہ
کے بعداس دستوری خاکہ میں کل مسائل کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ
گئی۔ (دفاع امام ابوحنیفہ،ص:۱۲۶، فتاویٰ رحیمیہ:۱/۱۳۶، سیرة النعمان،ص:۱۵۴)
ارکانِ شوریٰ:
امام اعظم نے دستور اسلامی کی مجلس تدوین
میں جن جن عظیم المرتبت اشخاص کا انتخاب کیا تھا، فقہ اسلامی
کے ماہرین اورامام صاحب کے تذکرہ نگاروں نے ان کی تعداد چالیس بیان
کی ہے، امام طحاوی
نے اپنی مسند سے نقل کیاہے کہ امام صاحب کے چالیس ممتاز اور
ماہر فن تلامذہ تدوین فقہ اور کارِ اجتہاد میں ان کے شریک
ومعاون تھے، اگرچہ امام طحاوی
نے چند ناموں پراکتفاء کیاہے؛ لیکن بعض دیگر موٴرخین
نے تمام اسماء کو شمار کرایا ہے، جو حسب ذیل ہیں:
(۱) امام زفر م ۱۵۸ھ (۲) امام مالک بن مغول م ۱۵۹ھ (۳) امام داؤد طائی
م ۱۶۰ھ (۴) امام مندل بن علی
م ۱۶۸ھ (۵) امام نضر بن
عبدالکریم م ۱۶۹ھ
(۶)
امام عمرو بن میمون
م ۱۷۱ھ (۷) امام حبان بن علی
م ۱۷۳ھ (۸) امام ابوعصمہ م ۱۷۳ھ (۹) امام زُہیر
بن معاویہ م ۱۷۳ (۱۰) امام قاسم بن معن م ۱۷۵ھ (۱۱) امام حماد بن
الامام الاعظم م ۱۷۶ھ
(۱۲)
امام ہیاج بن بسطام
م ۱۷۷ھ (۱۳) امام شریک
بن عبداللہ م ۱۷۸ (۱۴) عافیہ بن یزید م ۱۸۰ھ (۱۵) امام عبداللہ بن
مبارک م ۱۸۱ھ (۱۶) امام ابویوسف
م ۱۸۲ھ (۱۷) امام محمد بن نوح
م ۱۸۲ھ (۱۸) مام ہشیم بن
بشیر السلمی م ۱۸۳ھ (۱۹) ابوسعید یحییٰ
بن زکریا م ۱۸۴ھ
(۲۰)
امام فضیل بن عیاض
م ۱۸۷ھ (۲۱) امام اسد بن عمر م
۱۸۸ھ (۲۲) امام محمد بن
الحسن م ۱۸۹ھ (۲۳) امام یوسف
بن خالد م ۱۸۹ھ (۲۴) امام علی بن
مسہر م ۱۸۹ھ (۲۵) امام عبداللہ بن
ادریس م ۱۹۲ھ
(۲۶)
امام فضل بن موسیٰ
م ۱۹۲ھ (۲۷) امام علی بن
طبیان م ۱۹۲ھ
(۲۸)
امام حفص بن غیاث م
۱۹۴ھ (۲۹) وکیع بن
جراح م ۱۹۷ھ (۳۰) امام ہشام بن یوسف
م ۱۹۷ھ (۳۱) امام یحییٰ
بن سعید القطان م ۱۹۸ھ
(۳۲)
امام شعیب بن اسحاق
م ۱۹۸ھ (۳۳) امام حفص بن
عبدالرحمن م ۱۹۹ھ
(۳۴)
ابومطیع بلخی
م ۱۹۹ھ (۳۵) امام خالد بن سلیمان
م ۱۹۹ھ (۳۶) امام عبدالحمید
م ۲۰۳ھ (۳۷) امام حسن بن زیاد
م ۲۰۴ھ (۳۸) امام ابوعاصم النبیل
م ۲۱۲ھ (۳۹) امام مکی بن
ابراہیم م ۲۱۵ھ
(۴۰)
امام حماد بن دلیل
م ۲۱۵ھ (الجواہر المضیئہ:۱/۱۴، بحوالہ امام اعظم ابوحنیفہ،ص:۱۷۸)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم
ہوتا ہے کہ امام صاحب کی ایک فقہ اکیڈمی تھی جس میں
ان کے ممتاز تلامذہ ان کے معاون اور شریک کار تھے اور امام صاحب مجتہد فیہ
مسائل کو اجتماعی طورپر حل کیاکرتے تھے، لیکن ان حضرات کے اسمائے
گرامی اور سنین ولادت ووفات کا عمومی جائزہ لیا جائے تو یہ
فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ تمام تلامذہ اکیڈمی کے قیام
کے وقت سے ہی ان کے شریک کار تھے، جیسے کہ امام محمد کی سن پیدائش ۱۳۲ھ اور یحییٰ بن ابوزائدہ کی سن پیدائش
۱۲۰ھ ہے اور عبداللہ بن مبارک کی سن پیدائش ۱۱۸ھ ہے جبکہ امام صاحب کی شوریٰ ۱۲۰ھ یا ۱۲۸ھ سے قائم ہے، تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ یہ
تلامذہ اسی وقت سے ان کی کمیٹی میں داخل ہوگئے تھے،
اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ امام صاحب نے وقتاً فوقتاً اپنے تلامذہ کو اپنے
کارِ اجتہاد میں شریک کیا تھا، آپ کے بعض تلامذہ ایسے بھی
تھے کہ جب آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے تو آپ سے جدا ہونا حرماں نصیبی
تصور کیا اور تا حیات آپ کے علمی سرچشمے سے تشنگی علم کو
فرو کرتے رہے، یہی تلامذہ جو درحقیقت خود بھی اجتہاد کے
درجے پر فائز تھے، آپ کی اکیڈمی کے رکن رکین تھے، انھیں
خادمانِ فقہ حنفی نے تقریباً تیس سال کی مدت میں
فقہ حنفی کی تدوین کا عظیم الشان اور لازوال کارنامہ
انجام دیا ہے، جن کی مجموعی تعداد چالیس تک پہنچتی
ہے، جزاہم اللّٰہ خیر الجزاء․
امام صاحب کے
مخصوص تلامذہ:
جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا
کہ فقہ حنفی کی تدوین میں امام صاحب کے چالیس
تلامذہ شریک تھے، لیکن ان میں بھی دس تلامذہ سابقین
اولین میں سے تھے، جیساکہ طحاوی نے اسد بن فرات سے نقل کیا ہے:
”کان أصحاب أبی حنیفة الذین دونوا الکتب أربیعن
رجلاً فکان فی العشرة المتقدمین أبویوسف، زفر بن ھذیل
وداوٴد الطائی وأسد بن عمر ویوسف بن خالد السمتی ویحیٰ
بن زکریا بن ابی زائدہ (تقدمہ نصب الرایہ ص۳۸)
امام
صاحب کے تلامذہ جنھوں نے فقہ حنفی کو مدون کیا چالیس ہیں
ان میں دس سابقین میں: ابویوسف، زفر بن ہذیل، داؤد طائی،
اسد بن عمر، یوسف بن خالد سمتی، یحییٰ بن زکریا
بن ابوزائدہ ہیں۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ
چالیس افراد کی دستوری کمیٹی کے علاوہ دس یا
بارہ افراد پر مشتمل ایک دوسری خصوصی کمیٹی تھی،
جو فیصلے کو آخری شکل دیتی تھی اور حتمی
نتائج پر پہنچتی تھی، جیسا ضمیری نے امام زفر کے متعلق لکھا ہے:
”ثم انتقل الی أبی حنیفة فکان أحد العشرة الأکابر
الذین دونوا الکتب مع أبی حنیفة“
پھر
امام ابوحنیفہ
کے پاس آئے اورامام صاحب کے ان دس لوگوں کی خصوصی کمیٹی
کے رکن بنے جنھوں نے فقہ حنفی کو مدون کیا۔ (اخبار ابی حنیفہ
ص۱۰۷)
اب ذیل میں انھیں
سابقین فقہ حنفی میں سے بعض کے مختصر حالات قلم بند کیے
جاتے ہیں:
امام ابویوسف:
آپ کااصل نام یعقوب بن ابراہیم
ہے، کوفہ میں پیدا ہوئے اور ۱۸۲ھ میں وفات پائی، معاشی اعتبار سے بہت کمزور
تھے، لیکن علم کا شغف بچپن ہی میں پیدا ہوگیا تھا،
والد کی خواہش تھی کہ آپ کوئی کام کریں اور گھر کا انتظام
کریں، لیکن امام صاحب کی صحبت فیض رسا نے مالی
اعتبار سے بھی بے نیاز کردیا اور علمی دنیا میں
قاضی القضاة کے مقام تک پہنچادیا، خلیفہ مہدی نے ۱۶۶ھ میں قاضی کے عہدہ پر مامور کیا، مہدی
کے بعداس کے جانشیں ہادی نے بھی اسی عہدہ پر بحال رکھا،
پھر خلیفہ ہارون رشید نے آپ کے لیاقت واہلیت سے واقف ہوکر
تمام بلادِ اسلامیہ کا قاضی القضاة بنادیا، یہ وہ عہدہ
تھا جو تاریخ اسلام میں کسی کو نصیب نہیں ہوا تھا،
آپ کے عہدئہ قضاء پر فائز ہونے سے فقہ حنفی کو بڑا عروج حاصل ہوا، آپ فقہاء
رائے میں اولین فقیہہ ہیں جنھوں نے اقوال کواحادیث
نبویہ سے موٴید کیا، آپ اصحاب ابوحنیفہ میں سب سے بڑے حافظ حدیث
کہلاتے تھے، امام ابویوسف نے بہت سی کتابیں تصنیف کی
ہیں، جن میں انھوں نے اپنے اور اپنے استاذ کے افکار ونظریات کو
مدون کیا ہے، ابن الندیم نے ان تمام کتابوں کی فہرست دی
ہے، ان میں کتاب الخراج، اختلاف ابن ابی لیلیٰ،
الرد علی سیر الاوزاعی زیادہ مشہور ہیں۔
امام محمد:
آپ کا نام محمد بن حسن اور کنیت
ابوعبداللہ ہے، آپ کی ولادت ۱۳۲ھ اور وفات ۱۸۹ھ میں ہوئی، امام صاحب کی وفات کے وقت آپ کی
عمر اٹھارہ سال تھی، اس لیے زیادہ مدت تک امام صاحب سے استفادہ
نہ کرسکے، اس لیے ان کا شمار فقہ حنفی کے اولین سابقین میں
نہیں ہوتا، لیکن انھوں نے امام صاحب کے بعدامام ابویوسف سے فقہ
حنفی کی تکمیل کرکے تدوین فقہ کی طرف خاص توجہ دی،اور
حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی کو متاخرین تک نقل کرنے کا سہرا
امام محمد کے سر جاتا ہے اورآج امام محمد کی کتابیں ہی احناف کے
لیے آنکھوں کا سرمہ ہیں،اور کوئی حنفی امام محمد کی کتابوں سے بے نیاز نہیں
ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ امام محمد کو فقہ حنفی کا دوسرا بازو شمار کیا
جاتا ہے، امام محمد کی کتابیں فقہ حنفی کا اولین مرجع
شمار کی جاتی ہیں، امام محمد کی کتابیں استناد کے اعتبار
سے دو درجوں میں منقسم ہیں:
قسم اول: کتب ظاہر الروایت ہیں
جو مندرجہ ذیل کتب ہیں: (۱) جامع
صغیر (۲) جامع کبیر (۳) سیر صغیر (۴) سیر کبیر (۵) مبسوط (۶) زیادات،
ان کو ”اصول“ بھی کہاجاتا ہے، فقہ حنفی کا زیادہ تر اعتماد انہی
کتابوں پرہے۔
قسم ثانی: اس میں وہ کتابیں
ہیں جو آپ کی طرف منسوب ہونے میں قسم اوّل کے برابر نہیں
ہیں ان میں یہ کتابیں شامل ہیں: (۱) کیسانیات (۲) ہارونیات (۳) جرجانیات
(۴)
رقیات (۵) زیادات، مندرجہ بالا کتابوں کو غیر ظاہر الروایت
سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
امام زفر:
امام صاحب کے دونوں ارشد تلامذہ امام ابویوسف اورامام محمد سے صحبت کے اعتبار سے مقدم تھے، فقہ حنفی
میں ان کا درجہ امام ابویوسف کے ہم پلہ اور امام محمد سے زیادہ شمار کیاجاتا ہے،
امامِ زفر کے مرتبہ کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا
ہے جس کو ضمیری نے امام صاحب کے نبیرہ اسمٰعیل بن حماد
کے حوالے سے نقل کیا ہے ”کہ ایکدن امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ میرے ۳۱ شاگرد ہیں ان میں ۲۸ قاضی بن سکتے ہیں اور چھ مفتی بن سکتے ہیں
اور دو یعنی ابویوسف اور زفر دونوں گروہ کے استاذ اور مربی
بن سکتے ہیں۔ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص۱۵۲)
اس واقعہ میں امام صاحب نے امامِ
زفر کو اپنے اراکین شوریٰ کا استاذ قرار دیا ہے، امامِ
زفر قیاس واجتہاد میں اس درجہ ماہر تھے کہ قیاس ہی ان کی
شان وپہچان بن گئی، تاریخ بغداد میں چاروں بزرگوں کا تقابل کرتے
ہوئے لکھا ہے کہ:
ایک
شخص امام مزنی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اہل عراق کے بارے میں
دریافت کرتے ہوئے امام مزنی سے کہا کہ ابوحنیفہ کے بارے میں آپ کی کیا
رائے ہے؟ مزنی نے کہا اہل عراق کے سردار ہیں، اس نے پھر پوچھا: ابویوسف
کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ مزنی بولے وہ سب سے زیادہ حدیث
کا اتباع کرنے والے ہیں، اسی شخص نے بھر کہا امام محمد کے بارے میں
کیافرماتے ہیں مزنی فرمانے لگے وہ تفریعات میں سب
سے فائق ہیں، وہ بولا اچھا تو زفر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
امام مزنی نے کہا وہ قیاس میں سب سے ماہر ہیں“ (حیاتِ
امامِ ابوحنیفہ:۳۰۳)
امام ابوحنیفہ کے بعد امامِ زفر آپ کے حلقہ درس کی
جانشیں ہوئے، ان کے بعد مسند تدریس امام ابویوسف کے حصہ میں
آئی، بصرہ کا عہدہ قضا بھی ان کو ملا، لیکن فقہ حنفی میں
ان کی کوئی تصنیف نہیں، اس لیے عموماً امام محمد کے بعد ان کا تذکرہ کیاجاتاہے۔
قاسم بن معن:
عبداللہ بن مسعود کے خاندان سے ہیں، فقہ پر کافی
عبور حاصل تھا اور عربیت وادب میں اپنی نظیر نہ رکھتے
تھے، امام محمد
نے اپنی کتابوں میں ان کے نام اور کنیت دونوں سے روایت کیا
ہے، قاضی شریک بن عبداللہ کے بعد کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے۔
(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص۱۵۰)
علم حدیث میں بھی
اونچا مقام حاصل تھا، صحاحِ ستہ کے مصنّفین نے ان سے روایت کی ہیں۔
امامِ ابوحنیفہ
کو ان سے خاص محبت تھی، یہ بھی منجملہ ان لوگوں کے ہیں جن
کی نسبت امام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ”تم لوگ میرے دل کی
تسلی اورمیرے غم کو مٹانے والے ہو“ ان کو بھی امام صاحب کے ساتھ
نہایت خصوص تھا، ایک شخص نے پوچھا کہ آپ فقہ وعربیت دونوں کے
امام ہیں ان دونوں علموں میں وسیع کون علم ہے؟ فرمایا کہ
واللہ ابوحنیفہ
کی ایک تحریر کل فن عربیت پر بھاری ہے، ۱۷۵ھ میں وفات پائی (سیرة النعمان،ص:۲۳۰)
عافیہ بن یزید:
فن حدیث میں بلند مقام پر
فائز تھے، امام نسائی اور ابوداؤد وغیرہ نے ان کی توثیق کی
ہے، بغداد کے قاضی تھے، خطیب نے لکھاہے کہ عافیہ عالم وزاہد
تھے، ایک مدت تک قاضی رہے پھر قضاء سے مستعفی ہوگئے۔ (سیر
اعلام النبلاء ۷/۳۹۸) امام صاحب کے مخصوص تلامذہ میں سے تھے اور آپ کے شورائی
کمیٹی کے اہم رکن تھے؛ امام صاحب ان کا بہت خیال کرتے؛ بلکہ ان
کی رائے کے بغیر کچھ بھی دستوری کتاب میں تحریر
نہ کیاجاتا تھا، ضمیری نے اسحاق بن ابراہیم کے حوالے سے
نقل کیا ہے کہ
”ابوحنیفہ کے تلامذہ کسی مسئلہ میں غور
وخوض کرتے اور اس وقت عافیہ نہ ہوتے توامام صاحب فرماتے اس کو ابھی مت
لکھو اورجب عافیہ آتے اور سب کے رائے سے اتفاق کرتے توامام صاحب فرماتے اس
کو لکھو اور اگر وہ اتفاق نہ کرتے توامام صاحب فرماتے اس کو مت لکھو۔“
(اخبار ابوحنیفہ واصحابہ،ص۱۴۹)
یحییٰ
بن زکریا بن ابوزائدہ:
علامہ شبلی نعمانی نے سیرة النعمان میں امام
طحاوی کے حوالے سے نقل کیاہے کہ ”امام
صاحب کی شوریٰ میں لکھنے کی خدمت یحییٰ
سے متعلق تھی اور وہ تیس برس تک اس خدمت کو انجام دیتے رہے، آگے
علامہ شبلی
لکھتے ہیں کہ یہ مدت صحیح نہیں؛ لیکن کچھ شبہ نہیں
کہ وہ بہت دنوں تک امام صاحب کے ساتھ تدوین فقہ کا کام کرتے رہے اور خاص کر
تصنیف وتحریر کی خدمت انہی سے متعلق رہی۔“ (سیرة
النعمان،ص۲۱۶)
ضمیری نے صالح بن سہیل کا قول نقل کیا ہے کہ:
”یحییٰ
بن زکریا
اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظ حدیث اور فقیہ تھے اور امام ابوحنیفہ اور ابن ابی لیلیٰ کی مجلسوں میں کثرت سے شریک
ہوتے تھے۔“ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص:۱۵۰)
یہ امام کے ارشد تلامذہ میں تھے اورایک
مدت تک آپ کے ساتھ رہے تھے، یہاں تک کہ علامہ ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں ان کو ”صاحب
ابی حنیفہ“
کا لقب دیا ہے، تہذیب التہذیب میں ابن عیینہ کا قول ہے:
”ما قدم علینا مثل ابن المبارک ویحیٰ
بن ابی زائدة․
ہمارے
پاس ابن مبارک اوریحییٰ بن ابی زائدہ جیسے
اہل علم نہیں آ ئے۔“ (تہذیب التہذیب ۷/۳۷)
ابن ابی حاتم سے منقول ہے کہ کوفہ میں سب سے
پہلے یحیٰ بن ابوزائدہ نے کتاب لکھی اور عجلی کہتے
ہیں کہ یحییٰ مدائن کے قاضی تھے اور کوفہ کے
حفاظِ محدثین میں اُن کا شمار ہوتا تھا، وکیع نے اپنی
کتابوں کو یحییٰ بن ابی زائدہ کی کتاب کی
ترتیب پر مرتب کیا؛ ۱۸۲ھ یا ۱۸۳ھ میں مدائن میں ان کا انتقال ہوا۔ (تہذیب
التہذیب ۷/۳۸)
یوسف بن
خالد سمتی:
آپ امام صاحب کی شوریٰ
کے رکن تھے اور طویل مدت تک امام صاحب کی صحبت میں رہ کر آپ کے
خرمن فیض سے خوشہ چینی کرتے رہے، یہ پہلے شخص ہیں
جنھوں نے بصرہ میں امام صاحب کی فقہ کو رائج کیا، ہارون رشید نے قاضی القضاة کا عہدہ تفویض
کیا تھا، اخیر عمر میں زہد وتقشف کی زندگی بسر کی،
قیاس میں بہت ماہر تھے؛ لیکن علم حدیث میں کوئی
نمایاں مقام نہ تھا۔ (اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص۱۵۰)
داؤد طائی:
امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگرد ہیں اور تدوین
فقہ میں امام صاحب کے شریک اورمجلس کے معزز ممبر تھے، علامہ شمس الدین
ذہبی نے ”سیر اعلام النبلاء“ ۷/۴۲۲ میں ”الامام الفقیہ القدوة الزاہد“ سے ان کو یاد
کیاہے، فقہ واجتہاد کے امام تھے، امام محمد نے بھی ان سے استفادہ کیاہے،
خاموش مزاج اور بہت کم گو تھے، ”امام محمد کہتے ہیں: میں داؤد سے اکثر
مسئلے پوچھنے جاتا اگر کوئی ضروری اور علمی مسئلہ ہوتا تو بتادیتے
ورنہ کہتے بھائی مجھے اور ضروری کام ہیں۔“ (اخبار ابی
حنیفہ واصحابہ،ص۱۱۲)
اخیر عمر میں زہد وقناعت
اور دنیا سے بے رغبتی کو ترجیح دی، علامہ ضمیری ان کے زہد وتقشف کے واقعات ذکر کرتے ہوئے
عمرو بن ذرکا قول نقل کرتے ہیں: ”اگر داؤد الطائی صحابہ میں
ہوتے تو ان میں نمایاں ہوتے“ محارب بن دثار کہتے ہیں کہ ”اگر
داؤد الطائی پچھلی امتوں میں ہوتے تو اللہ تعالیٰ
قرآن میں ان کا قصہ بیان کرتا“ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں: ”جب داؤد الطائی
قرآن پڑھتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جواب سن
رہے ہیں“ محمد بن سوید الطائی کہتے ہیں کہ ان کی
بزرگی اور فضل وکمال کا یہ عالم تھا کہ جب انھوں نے امامِ ابوحنیفہ کے حلقہٴ درس کو ترک کیا تو
خود امام صاحب اکثر ان کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ ۱۶۲ھ میں انتقال ہوا۔ (اخبارابی حنیفہ
واصحابہ،ص:۱۱۳ و ۱۱۶)
***
------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3-4 ،
جلد: 96 ، ربیع الثانی ، جمادی الاولی 1433 ہجری
مطابق مارچ ، اپریل 2012ء